تہران، بیجنگ اور ماسکو نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کے ایٹمی معاملے کا راہ حل سفارتی تعاون اور باہمی احترام کی بنیاد پر سیاسی گفتگو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
چین کے نائب وزیر خارجہ ماجائوشو کی میزبانی میں منعقدہ اس میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں درج ہے کہ موجودہ صورتحال کے ذمہ داروں کو پابندیوں، دباؤ اور دھمکی آمیز رویے کو ترک کرنا ہوگا۔
ایران، روس اور چین نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 پر زور دیتے ہوئے، اس میں موجود ٹائم لائن کی پابندی اور ہر ایسے اقدام سے گریز کا مطالبہ کیا جس سے سفارتکارانہ ماحول متاثر ہو۔
تینوں ممالک نے اس مشترکہ بیان میں ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے احترام کی نشاندہی بھی کی ہے۔
چین اور روس نے اس بیان میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے نہ کہ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار کے لیے۔
ماسکو اور بیجنگ نے ایران کی جانب سے سیف گارڈ کے سمجھوتے پر مکمل عملدرامد کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
ایران، روس اور چین کے نائب وزرائے خارجہ کی نشست کے بعد جاری ہونے والے بیان میں تمام حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کا فنی اور غیرجانبدارانہ رویہ متاثر ہو رہا ہو۔
ایران اور روس نے تعمیری کردار اور اس میٹنگ کی میزبانی کے لیے بیجنگ کی قدردانی کی۔
تینوں حکومتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں علاقائی معاملات، بین الاقوامی مسائل اور دلچسپی کے مشترکہ موضوعات میں مشوروں اور قریبی تعاون کا سلسلہ جاری اور عالمی اداروں اور شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں کے تحت رابطوں میں فروغ لایا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ اس نشست میں ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی، ان کے روسی ہم منصب سرگئی ایلکسیوچ ریابکوف اور چین کے نائب وزیر خارجہ ماجائوشو نے شرکت کی تھی۔
اس دوران ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کا جائزہ لیا گیا اور امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد شدہ غیرقانونی پابندیوں پر بات چیت کی گئی۔
آپ کا تبصرہ